Aiza Khan

Add To collaction

کہانی لکھتے ہوئے داستاں سناتے ہوئے

کہانی لکھتے ہوئے داستاں سناتے ہوئے
وہ سو گیا ہے مجھے خواب سے جگاتے ہوئے

دیے کی لو سے چھلکتا ہے اس کے حسن کا عکس
سنگار کرتے ہوئے آئینہ سجاتے ہوئے

اب اس جگہ سے کئی راستے نکلتے ہیں
میں گم ہوا تھا جہاں راستہ بتاتے ہوئے

پکارتے ہیں انہیں ساحلوں کے سناٹے
جو لوگ ڈوب گئے کشتیاں بناتے ہوئے

پھر اس نے مجھ سے کسی بات کو چھپایا نہیں
وہ کھل گیا تھا کسی بات کو چھپاتے ہوئے

مجھی میں تھا وہ ستارہ صفت کہ جس کے لیے
میں تھک گیا ہوں زمانے کی خاک اڑاتے ہوئے

مزاروں اور منڈیروں کے رت جگوں میں سلیمؔ
بدن پگھلنے لگے ہیں دیے جلاتے ہوئے
سلیم کوثر

   0
0 Comments